اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ دسمبر سے دمشق میں مقیم ایک یورپی سفیر نے کہا ہے کہ ہم نے مئی کے مہینے سے قدم بقدم دمشق واپسی کا آغاز کیا، ابتداء میں ہم خفیہ طور پر ایک دن کے لئے دمشق واپس آئے، اس کے بعد دو دنوں کے لئے اور تیسری مرتبہ تین دن کے لئے اور اب ماہناہ ایک یا دو مرتبہ دمشق آتے جاتے ہیں۔ بہرحال چیک جمہوریہ کی سفیر مسز آوا فلپی نے دمشق کو کبھی ترک نہیں کیا اور آسٹریا، رومانیہ، اسپین، سویڈن، ڈنمارک کے نمائندے اور یورپی اتحاد کا ناظم الامور منظم انداز سے شام کے دارالحکومت میں موجود ہیں اور ان میں سے بعض نے تین دن قبل شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل المقداد کے ساتھ ملاقات میں شرکت کی ہے! دریں اثناء شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بندش پر اصرار کرنے والے نادم یورپی حکام نے 179 شامی حکام اور سیاستدانوں کی فہرست دے کر اپنے سفارتکاروں سے کہا ہے کہ ان کے ساتھ ملاقات نہ کریں! کیونکہ ان افراد پر یورپی یونین نے پابندی لگائی ہے!! تاہم ایک یورپی سفارتکار نے فرانس پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ہم ان افراد کے ساتھ ملاقات نہیں کرسکتے لیکن ہم کسی مقام پر مدعو کئے جائیں جہاں ان میں سے کوئی فرد موجود ہو تو ہم ان سے منہ نہیں موڑیں گے اور اگر وہ بات کریں تو ہم جواب دیں گے! اس سفارتکار نے کہا: "یورپی یونین نے رکن ممالک سے یہ نہیں کہا ہے کہ وہ دمشق میں اپنے سفارتخانے بند کریں اور سفارتخانوں کی بندش ایک منصوبے سے آگے کچھ نہ تھی جو "شام کے دوستوں" (یعنی بشارالاسد حکومت اور شامی عوام کےخونی دشمنوں) نے بشار الاسد کے مخالفین کی حمایت کے اظہار کے طور پر پیش کیا تھا؛ میرے خیال میں یورپ کے کئی ممالک کے سفارتکار 2014 کے ابتدائی مہینوں میں ہی دمشق کی طرف آئیں گے۔مذکورہ سفارتکار نے کہا: یورپ سے آئے ہوئے 1000 جہادی شامی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اس مسئلے نے یورپی ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے چنانچہ یہ ممالک ان رابطوں کی بحالی کے خواہاں ہیں جو تقریبا دو سال قبل منقطع ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا: یورپی ممالک میں فرانس نے شام کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی برتی ہے لیکن اس کے باوجود حال ہی میں فرانسیسی حکومت نے اپنے دو اعلی سفارتکار شامی انٹیلجنس چیف علی مملوک کے ساتھ بات چیت کے لئے دمشق بھجوائے تھے تا کہ شام اور فرانس کے درمیان سابقہ خفیہ انٹیلجنس تعاون کی بحالی کے امکانات کا جائزہ لیں۔ علی مملوک نے بھی فرانسیسی سفارتکاروں کا جواب دیتے ہوئے کہا: کیا ایسا ممکن ہے؟ ہاں ممکن ہے؛ لیکن کیا ہم ایسا کوئی تعاون کرنے کے خواہاں ہیں؟ جواب یہ ہے کہ جب تک آپ کا سفارتخانہ بند رہے گا، یہ تعاون ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اس سفارتکار نے فرانس پریس کو بتایا کہ برطانیہ کی طرف سے بھی ایسی ہی کوششیں ہورہی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/٭۔٭
تفصیلی رپورٹس:
اسلامی محاذ مزاحمت کی کامیابیاں اور صہیونی ریاست کی عظیم شکست کا آغاز